ہومیو پیتھی

ہومیوپیتھک دواوں اور نسخہ جات کی پو ٹینسی کا عمومی طریقہ کار

1۔ مدر ٹنکچر1-Qتا1x-30تا6x روزانہ تین بار
2۔200 طاقت عموما تین دن روزانہ ایک بار۔پھر ہفتہ میں ایک بار
3۔1M - 1000 ہفتہ میں ایک بار
4۔ایک لاکھ یا CM پندرہ دنوں یا مہینہ میں ایک بار
بعض معالجین200اور1000 طاقت کی دوا روزانہ تین بار استعمال کراتے ہیں ان کے تجربے کے مطابق اس کے ابھی اچھے نتائج دیکھنے میں آئے ہیں۔
حادامراض مثلاً ہیضہ،درد قولنج ، جریان ، حمل کا تکالیف وغیرہ کے فوری اور شدید حملہ کی صورت میں مجوزہ ادویات کو ابتداء میں دس پندرہ منٹ کے وقفہ سے بھی دہریا جا سکتا ہے۔

ہومیوپیتھک نسخہ جات اور مرکبات بنانے کی فلاسفی:
(حوالہ جات کے مطابق)
(۱)میں بعض دواؤں کو ملا کر فارمولے بناتا ہوں۔مگر ان کے پس منظر میں گہری فلاسفی ہوتی ہے۔جہاں دوؤں کے مزاج ملتے ہوں اور انہیں اکٹھا کر دیا جائے تو وہ ایک دوسرے کو طاقت دیتی ہیں،باہم ٹکراتی نہیں ہیں انہیں ملا کر دے دیں تو زیادہ طاقتور نسخہ بن جاتا ہے۔
(۲) دو تین دواؤں کو ایک دوسرے کے بعد دینا یا ملا کر ایک نسخہ کی صورت میں دینا یسا فن ہے جو دواؤں کے مزاج کے گہرے مطالعہ اور تجزیے سے نصیب ہوتا ہے۔
(۳) وقت بچانے کیلئے بعض دفعہ مجبوراً دوائیں ملا کر دینے کوئی حرج نہیں ہے۔اور ایسے نسخہ ہنگامی صورت میں کام آتے ہیں۔مگر ہر دوا کا مزاج سمجھنا اپنی ذات میں انتہائی ضروری ہے تاکہ اگر ایک صحیح دوا مل جائے تو اس سے بہتر کوئی علاج نہیں۔
اگر روزمرہ کی مصروفیت کی وجہ سے وقت نہ ملے تو مرض کے حوالے سے دوائیں دی جاتی ہیں۔میں بھی ہمیشہ وقت کی کمی کی وجہ سے ایسے نسخوں کی تلاش میں رہا جن سے جلد فائدہ ہوجائے۔لمبے تجربے کے پیش نظر احتیاط سے بنائے ہوئے یہ نسخے کام اکثر صورتوں میں آجاتے ہیں۔ لیکن جو مرض باقی رہ جائیں ان کے بارہ میں مذکورہ بالا طریق استعمال کرنا لازم ہے۔
عام طور پر ہومیو پیتھ اس فلسفے کو قبول کرتے ہیں کہ ہومیو پیتھی کی ایک دوائی کو دوسری میں نہ ملایا جائے۔میں بھی شروع شروع میں ایسا ہی کرتا رہا۔مگر مجھے یہ طریق بدلنا پڑا۔اسکی وجہ میری یہ مشکل تھی کی ایک دوا کی پہچان کیلئے جتنا وقت چاہئے وہ اکثر میسر نہیں آتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصروفیاے مجھے مجبور کرتے تھیں کہ اپنے علم اور تجربات کی روشنی میں ایسے مرکبات بنا لو جو اکثر مریضوں کیلئے کار آمد ثابت ہوں۔ جن کو فائدہ نہ ہوا انہیں متبادل مرکبات دیا کرتا تھا اور آخر پر جو چند مریض رہ جاتے تھے ان کا علاج مذکورہ طریق پر کرتا ہے۔
پس مرکب بناے پر مجبور ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ہومیو پیتھک طریقہ علاج تو دن بدن نئی دواؤں سے مزّین ہو رہا ہے اور ایسی دوائیں دریافت ہو رہی ہیں جو سابقہ دواؤں سے بہتر اثر دکھاتی ہیں یا سابقہ دواؤں میں ان مریضوں کا علاج نہیں۔اس لیے جو مرکبات بنائے جاتے ہیں تو دراصل ایک نئی دوا وجود میں آتی ہے۔کیونکہ اکثر دوائیں جو پہلے استعمال ہو رہی ہیں وہ قدرتی مرکبات ہی تو ہیں۔مثلاً نکس وامیکا کو ایک دوا کہنا اس لئے درست نہیں کہ نکس وامیکا تو بہت سی دواؤں کا قدرتی طور پر بننےوالا ایک مرکب ہے۔پس میں ہمیشہ اپنے بنائے ہوئے مرکبات پر اس پہلو سے غور کرتا ہوں کہ آخری نتیجہ کے طور پر ان کی کونسی علامات قابل اعتبار ہیں ہر گز ضروری نہیں کہ ہر دوا جو اس مرکب میں شامل ہو اس کی تمام علامات مرکب میں بھی موجود رہیں کیونکہ دوائیں ایک دوسرے کے اثر کو اندر ہی زائل بھی کرتی رہتی ہیں آخری صورت میں بعض دفعہ بالکل مختلف تاثیر بھی ظاہر ہوتی ہے۔